کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 17
عذاب سے دوچار ہوئے،اور انہیں قبر کی تاریکی‘ کفر کی تاریکی‘ نفاق کی تاریکی اور قسم قسم کے گناہوں کی تاریکیوں کا سامنا کرناپڑااور(یہی نہیں بلکہ)اس کے بعد جہنم کی تاریکی کا سامنا کرنا پڑا جو کہ انتہائی بدترین جائے سکونت ہے،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ﴿صُمٌّ﴾یعنی خیر وبھلائی کی سماعت سے بہرے‘﴿بُكْمٌ﴾بھلائی کی بات کہنے سے گونگے اور﴿عُمْيٌ﴾یعنی حق کے مشاہدہ سے اندھے ہیں،﴿فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ﴾لہٰذا وہ پلٹ نہیں سکتے،کیونکہ انہوں نے حق کی معرفت کے بعد حق کو ترک کردیا اور پس پشت ڈال دیا ہے،اس لئے وہ اس کی طرف نہیں پلٹ سکتے،برعکس اس کے جس نے جہالت کی بنیاد پر حق کو ترک کردیا ہو‘ اسے اس کی سمجھ ہی نہ ہو،تو ایسا شخص ان کی بہ نسبت حق کی قبولیت سے قریب تر ہوتا ہے‘‘[1]۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دشمن منافقوں کو ان لوگوں سے تشبیہ دی ہے جنھوں نے آگ روشن کی ہو ‘ جس سے وہ روشنی حاصل کرسکیں اور فائدہ اٹھا سکیں،اور جب آگ روشن ہوجائے تو وہ اس کی روشنی میں اپنے نفع ونقصان کی چیزیں دیکھ لیں‘ اور چونکہ وہ مسافر تھے جو راستہ کھوبیٹھے تھے اور اس غرض سے آگ روشن کی تھی کہ راستہ دیکھ سکیں اس لئے حیرانی اور راستہ کھونے کے بعد راستہ بھی دیکھ لیں،چنانچہ جب آگ سے ان کی روشنی کا سامان ہوجائے اور وہ راستہ دیکھ لیں تو یہ روشنیاں گل ہوجائیں اور وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھٹکتے رہ جائیں اور ان کے لئے ہدایت و راہیابی کے تینوں دروازے بند ہوجائیں؛ کیونکہ ہدایت بندے کے اندر تین راہوں سے داخل ہوتی ہے،ایک جسے وہ اپنے کان سے سنتا ہے،دوسرے جسے وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور تیسرے جسے وہ اپنے دل سے سمجھتا ہے،اور جب ان لوگوں پر ہدایت کے سارے دروازے بند ہوچکے ہیں تو ان کے دل نہ کچھ سن سکتے ہیں ‘ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حق میں نفع بخش چیزیں سمجھ سکتے ہیں‘‘[2]۔
نیز امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب کو ‘ اپنے رسول کو ‘ اپنے دین کو اور اپنی ہدایت کو نور قرار دیا ہے،اور اللہ عزوجل کے ناموں میں ایک نام بھی ’’النور‘‘ ہے اور نماز بھی
[1] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 27۔
[2] اجتماع الجیوش الاسلامیہ،2/63۔