کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 16
گئے ہوں،اور ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہو،امام ابن جریررحمہ اللہ کو یہ آیت کریمہ مستحضر نہ تھی:
﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ(٣)﴾[1]۔
یہ اس لئے کہ یہ ایمان لائے،پھر کفر کیا،چنانچہ ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی،تو وہ سمجھنے کے لائق ہی نہ رہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی[2]۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ان کی حالت کے مطابق ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے آگ روشن کی ہو‘ یعنی وہ شخص گھپ اندھیرے میں ہو اور آگ کی ضرورت شدیدتر ہو،چنانچہ وہ کسی اور سے آگ روشن کرائے‘ خود اس کے پاس تیاربھی نہ ہو بلکہ اس سے خارج ہو،چنانچہ جب آگ سے اس کے آس پاس کی جگہ روشن ہوجائے اور وہ اپنی جائے قیام اور اس کی خوفناکیوں اور خطرناکیوں کو دیکھ لے اور اس سے مامون و محفوظ ہو جائے‘ اوراس سے فائدہ اٹھا لے‘ اس سے اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوجائے‘ اور وہ یہ محسوس کرلے کہ حالات اس کے قابو اور بس میں ہیں‘ اور ابھی وہ اسی حال میں ہو کہ اچانک اللہ تعالیٰ اس کی روشنی غائب کردے اور اس سے اس کا نور زائل ہوجائے،اور اسی کے ساتھ اس کی خوشی ومسرت بھی جاتی رہے اور وہ بڑی سخت تاریکی میں جلانے والی آگ کے پاس پڑا رہ جائے،ایسی آگ جس کی چمک اور روشنی جا چکی ہومحض جلانے کا وصف ہی باقی رہ جائے،اور نتیجہ یہ ہو کہ وہ رات کی تاریکی‘ بدلی کی تاریکی‘ بارش کی تاریکی اور روشنی کے بعد آنے والی تاریکی جیسی متعدد تاریکیوں میں جا پڑے ‘ تو ایسے شخص کی کیا حالت ہوگی ؟؟
چنانچہ اسی طرح یہ منافقین بھی ہیں کہ انھوں نے مومنوں سے ایمان کی روشنی مانگی جبکہ خود ان کا یہ وصف نہ تھااور وقتی طور پر اس سے روشنی حاصل کی‘ فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں ان کے خون معاف کر دیئے گئے،ان کے اموال کی حفاظت ہو گئی،اور دنیا میں بھی ایک قسم کا امن حاصل ہوا،اور ابھی اسی حالت میں تھے کہ یکایک موت نے ان پر حملہ کیا اور ان سے اس نور سے فائدہ اٹھانا سلب کرلیا،اور وہ ہر طرح کے فکر وغم اور
[1] سورۃ المنافقون:3۔
[2] تفسیر القرآن العظیم،1/51۔