کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 15
تاریکیوں سے دوچار ہوں گے[1]۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے تھے اورپھر ایمان کے بعد کفر کیا تھا،چنانچہ رقمطراز ہیں:’’اس مثال کی تقدیر(وضاحت)یوں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے(اپنانے)اور بصیرت کے بعد اندھے پن کا شکار ہوجانے میں ان کی تشبیہ اس شخص سے دی ہے جو آگ روشن کرے اور جب اس کے ارد گرد روشنی پھیل جائے اور وہ اس سے فائدہ اٹھالے اور اپنے دائیں بائیں کی چیزیں دیکھ لے اور اس سے خوش ہوجائے اورابھی وہ اسی حالت میں ہو کہ یکایک اس کی آگ گل ہوجائے اوروہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہوجائے‘ نہ اسے نظر آئے اور نہ ہی وہ راستہ پا سکے‘ اس پر مستزاد یہ کہ وہ بہرا ہو سن نہ سکے‘ گونگا ہو بول نہ سکے‘ اندھا ہو جسے روشنی کے باوجود بھی نظر نہ آئے‘ جس کے سبب وہ اپنی پہلی جگہ لوٹ بھی نہ سکتا ہو،چنانچہ ہدایت کے عوض ضلالت اور راہ راست کے بدلے گمراہی اختیار کر نے میں یہ منافقین بھی اسی طرح ہیں،اور اس مثال سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے تھے‘ پھر(دوبارہ)کفر اختیار کر لیا تھا‘‘[2]۔
نیز(امام ابن کثیر رحمہ اللہ)فرماتے ہیں:’’امام ابن جریر رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہاں جن کی مثال بیان کی گئی ہے وہ کبھی بھی ایمان سے بہرہ ور نہ ہوئے تھے‘ اور انھوں نے اس پر(درج ذیل)فرمان باری سے استدلال کیا ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ(٨)﴾[3]۔
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔
جبکہ درست بات یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں ان کے حالت نفاق اور کفر کی خبر دی جارہی ہے،اور اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس سے قبل کبھی ایمان سے بہرہ ور ہوئے ہوں اور پھر محروم کردیئے
[1] دیکھئے:تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 27۔
[2] تفسیر القرآن العظیم،1/51۔
[3] سورۃ البقرہ:8۔