کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 14
اس شخص جیسی ہے جو کسی تاریک رات میں کسی صحراء میں آگ روشن کرے،اس سے حرارت حاصل کرے اور اسے اپنے ارد گرد کی چیزیں نظر آنے لگیں،اور(نتیجۃً)جس چیز سے وہ خائف تھا وہ خوف اس سے جاتا رہے‘ اور ابھی اسی حال میں ہو کہ یکایک اس کی آگ گل ہوجائے اور وہ تاریکی میں حیران وپریشان سراسیمہ پڑا رہ جائے،چنانچہ اسی طرح منافقین بھی ہیں کہ کلمۂ ایمان(شہادتین)کے اظہارسے ان کے مال واولاد محفوظ ہوئے،مومنوں کے ساتھ شادی بیاہ اور وراثت کے معاملات طے پائے،اموال غنیمت میں ان کے ساتھ حصہ بٹایا،یہ ان کا نور ہے،اور جب یہ منافقین مریں گے تو پھر دوبارہ اسی تاریکی اور خوف وہراس سے دوچار ہوں گے[1]۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے،چنانچہ فرماتے ہیں:’’آیت کریمہ کی سب سے بہتر تفسیر وہ ہے جو قتادہ اور ضحاک نے کی ہے،اور جو علی بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے‘‘[2]۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے کہ ان منافقین نے اللہ ‘ اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں‘ رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان ظاہر کیا‘ جس کے سبب دنیا میں ان کی جان و مال کی حفاظت اور ان کی نسل کی امن و سلامتی کا فیصلہ کیا گیا،بعینہ اسی طرح جس طرح آگ روشن کرنے والا آگ سے روشنی حاصل کرلے‘ یہاں تک کہ جب اس کی روشنی سے فائدہ اٹھالے اور اپنے ارد گرد کی چیزیں دیکھ لے تو اس کی آگ بجھ جائے اور اس کی روشنی جاتی رہے،اور حسب سابق دوبارہ تاریکی اور حیرانی میں مبتلا ہوجائے،چنانچہ اللہ عزوجل قیامت کے روز ان کی روشنی گل کردے گا‘ اور وہ مومنوں سے ٹھہرنے(انتظار کرنے)کا مطالبہ کریں گے تاکہ ان کے نور سے روشنی حاصل کر سکیں،تو ان سے کہا جائے گا:اپنے پیچھے کی طرف پلٹو اور روشنی تلاش کرو[3]،چنانچہ وہ آخرت میں قبر کی تاریکی‘ کفر کی تاریکی‘ نفاق کی تاریکی اور قسم قسم کے گناہوں کی
[1] تفسیر البغوی،1/53۔ [2] جامع البیان عن تاویل آی القرآن،1/324،اور ان کے قول کے لئے اپنی سند 1/323 میں ذکر کیا ہے۔ [3] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن،1/326،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،1/230۔