کتاب: عثمان بن عفان - صفحہ 23
اللہ کے رسول! ہمیں کوئی جنتی آدمی دکھلائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’النبي من أھل الجنۃ وابوبکر وعمر من أھل الجنۃ وعثمان من اہل الجنۃ۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’نبی جنتی ہیں، ابو بکر وعمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘[1] ۷۔ ۹ ؁ھ میں غزوہ تبوک کا موقع تھا تو وہ وقت مسلمانوں کے لیے نہایت تنگی اور عسرت کا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تشویش ہوئی ،آپ نے صحابہ کو جنگی سامان کے لیے زر و مال سے اعانت کی ترغیب دلائی اور فرمایا:’’من جھز جیش العسرۃ فلہ الجنۃ‘‘ جو اس غزوہ کے لئے ساز و سامان فراہم کرے گا اس کے لیے جنت ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر آئے اور آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ اللہ کے رسول (خوشی سے) یہ اشرفیاں اپنے دست مبارک پر اچھال رہے تھے اور کہے جارہے تھے: ’’ماضر ابن عفان ما عمل بعد الیوم‘‘ یعنی آج کے بعد عثمان کا کوئی کام ان کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔[2] ۸۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ایک صحابی کو بلاؤ، میں نے پوچھا ابوبکر کو؟ آپ نے کہا نہیں، میں نے پوچھا عمر کو؟ آپ نے کہا نہیں، میں نے کہا آپ کے چچیرے بھائی علی کو؟ آپ نے کہا نہیں، میں نے کہا عثمان کو آپ نے کہا ہاں۔
[1] فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل : ۱/۳۷۲-۳۷۳، حدیث نمبر (۵۵۷) بإسناد حسن [2] احمد : ۴/۷۵، ۵/۶۳ ترمذی مع التحفۃ : ۱۰/۱۹۱-۱۹۳ مستدرک حاکم : ۳/۱۰۲ صححہ الذھبی