کتاب: عثمان بن عفان - صفحہ 18
عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت بھی یاد تھی کہ اگر لوگ آپ سے اس خلعت کو اتارنے کا مطالبہ کریں جو اللہ تعالیٰ آپ کو پہنائے گا تو آپ اسے نہ اتاریں اور صبر کریں، اسی طرح آپ کی شہادت کے بارے میں متعدد بار اللہ کے رسول بتلاچکے تھے۔ اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دست بردار ہونے کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق آخری لمحہ تک صبر کروں گا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انکار پر باغیوں نے کاشانہ خلافت کا نہایت سخت محاصرہ کرلیا جو چالیس دن تک مسلسل قائم رہا، اس عرصہ میں اندر پانی تک پہنچانا جرم تھا، صحابہ کرام اپنے لڑکوں کے ساتھ آپ کے پاس پہنچتے اور آپ کی طرف سے باغیوں سے مقابلہ کرنے کی اجازت چاہتے، مگر سب کو آپ نے سختی سے منع کردیا، اور سخت اصرار کے باوجود کسی کو قتل و خونریزی کی اجازت نہ دی۔ آپ ہر لمحہ اپنی شہادت کے واقعہ کے منتظر تھے، جس دن شہادت ہونے والی تھی خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ فرمارہے ہیں کہ آج آپ ہمارے ساتھ افطار کریں گے۔ آپ نے حاضرین سے اس خواب کا تذکرہ کیا، پھر پائجامہ جس کو کبھی نہیں پہنا تھا منگاکر پہنا۔ اپنے بیس غلاموں کو آزاد کیا، اور قرآن کھول کر تلاوت میں مصروف ہوگئے۔
ادھر باغیوں نے مکان پر حملہ کردیا، حضرت حسن جو دروازے پر متعین تھے مدافعت میں زخمی ہوگئے، باغیوں نے اندر پہنچ کر تلاوت کی حالت میں ہی ان پر حملہ کر