کتاب: عثمان بن عفان - صفحہ 15
مکہ سے واپسی میں حضرت عثمان کو تاخیر ہوئی تو اللہ کے رسول مضطرب ہوگئے، اسی حالت میں ایسی خبریں آنے لگیں کہ انہیں شہید کردیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر حضرت عثمان کے خون کے انتقام کے لیے صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیعت لی۔ اور آخر میں آپ نے اپنا دایاں دست مبارک بائیں پر رکھتے ہوئے فرمایاکہ یہ عثمان کی طرف سے ہے۔’’یہ حضرت عثمان کے تاج فخر کا وہ طرۂ شرف ہے جو ان کے علاوہ کسی اور کے حصہ میں نہ آیا‘‘۔[1]
٭ حضرت عثمان اس امت کے سب سے حیا دار شخص ہیں، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس صفت کا بہت پاس ولحاظ رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں ’’اصدقہا حیاء عثمان‘‘کہہ کر آپ نے حضرت عثمان کو امت محمدیہ کا سب سے حیا دار فرد قرار دیا ہے۔
[1] علامہ محب الدین الخطیب حضرت عثمان کی اس منقبت کے تذکرے کے موقع پر لکھتے ہیں کہ امیر المؤمنین عثمان اگر مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں سے ہوتے اور ان کو حضرت عیسیٰ بن مریم کی طرف سے یہ شرف حاصل ہوا ہوتاجس شرف سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نبی رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوازا تھا تو عیسائی ان کی پرستش کرنے لگتے۔ لیکن تعجب ہے اس امت پر کہ اس میں ایسے ایسے نادان پڑے ہیں جو بیعت رضوان سے حضرت عثمان کی غیر حاضری کو ان کا جرم گردانتے ہیں، اور ان نادانوں میں کچھ ایسے خود ساختہ بہادر ہیں جو اس رحم دل خلیفہ کا خون بہانے کی جرأت کرتے ہیں اور اس کے جواز کے لیے ان کے چند قصور گناتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ (العواصم من القواصم ، ص : ۱۰۶حاشیہ نمبر ۲)