کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 87
میں تین حضراتِ مفسرین کے اقوال توفیقِ الٰہی سے پیش کئے جارہے ہیں: ا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’حُفِظَا بِصَلاَحِ أَبِیْہِمَا، وَلَمْ یُذْکَرْ لَہُمَا صَلَاحًا۔‘‘[1] [’’ان دونوں کی اپنے باپ کی نیکی کی بنا پر حفاظت کی گئی، حالانکہ ان کی کسی ذاتی نیکی کا ذکر نہیں کیا گیا‘‘]۔ ۲: حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: اس میں یہ دلیل ہے، کہ نیک آدمی کی اولاد کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کی عبادت کی برکت دنیا و آخرت میں اس کی اولاد کے شاملِ حال ہوتی ہے۔ یہ بات قرآن و سنت سے ثابت ہے۔[2] ۳: علامہ سیوطی تحریر کرتے ہیں: ’’إِنَّ الْوَلَدَ یُحْفَظُ بِصَلَاحِ أَبِیْہِ۔‘‘[3] [بے شک باپ کی نیکی کی وجہ سے بیٹے کی حفاظت کی جاتی ہے]۔ ب: ارشادِ ربانی: {وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْہِمْ فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا}[4] [ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے، کہ اگر وہ اپنے بعد ناتواں بچے چھوڑ جائیں، جن کے متعلق انہیں (ضائع ہونے کا) اندیشہ ہو، تو ان لوگوں کو چاہیے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں اور سیدھی بات کہیں]۔
[1] تفسیر ابن کثیر ۳/۱۱۱۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۳/۱۱۱۔ [3] ملاحظہ ہو: الإکلیل في استنباط التنزیل ص ۱۷۱۔ [4] سورۃ النسآء / الآیۃ ۹۔