کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 84
[(اللہ تعالیٰ) اسے یہ [حیاۃ طیبہ] اطمینانِ قلب، سکونِ نفس اور دل کو تشویش لاحق کرنے والی چیزوں سے دور کرکے عطا فرماتے ہیں اور وہ اسے وہاں سے پاکیزہ حلال رزق عطا فرماتے ہیں، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا]۔
ج: ارشادِ باری تعالیٰ:
{وَ لَوْ أَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنٰہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ}[1]
[اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی، تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑلیا]۔
د: امام ترمذی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃَ ہَمُّہُ جَعَلَ اللّٰہُ غِنَاہُ فِيْ قَلْبِہِ، وَجَمَعَ لَہُ شَمْلَہُ، وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا، وَہِيَ رَاغِمَۃٌ۔۔۔۔الحدیث[2]
[’’جس شخص کا قصد و نیت آخرت ہو، اللہ تعالیٰ اس کے دل میں تونگری ڈال دیتے ہیں، اس کے بکھرے ہوئے معاملات کو سدھار دیتے ہیں اور دنیا ذلیل ہوکر اس کے پاس آتی ہے… الحدیث۔
[1] سورۃ الأعراف / الآیۃ ۹۶۔
[2] جامع الترمذي، أبواب صفۃ القیامۃ، باب، جزء من رقم الحدیث ۲۵۸۳، ۷/۱۳۹۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۲/۳۰۰)۔