کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 83
[نیک عمل کرنے والا شخص، جس کا دل اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان رکھتا ہو، وہ مرد ہو یا عورت اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے، کہ وہ اسے دنیا میں [حَیٰوۃً طَیِّبَۃً] عطا فرمائیں گے اور اسے دارِ آخرت میں اس کے عمل سے بہتر بدلہ دیں گے]۔ [حَیٰوۃً طَیِّبَۃً] کی تفسیر میں حضراتِ مفسرین کے نقل کردہ اقوال میں سے چار درجِ ذیل ہیں: ۱: وہ قناعت ہے۔[1] ۲: وہ پاکیزہ حلال رزق ہے۔ [2] ۳: وہ سعادت ہے۔[3] ۴: وہ دنیا میں رزق حلال اور عبادت ہے۔[4] حافظ ابن کثیر تحریر کرتے ہیں، کہ صحیح بات یہ ہے، کہ [حیاۃ طیبہ] ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔[5] شیخ سعدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ذٰلِکَ بِطَمَأنِیْنَۃِ قَلْبِہِ وَسَکُوْنِ نَفْسِہِ، وَعَدَمِ الْتِفَاتِہِ لِمَا یُشَوِّشُ عَلَیْہِ قَلْبَہُ، وَیَرْزُقُہُ اللّٰہُ رِزْقًا حَلَالًا طَیِّبًا مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔‘‘[6]
[1] ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۴/۴۸۸؛ وتفسیر ابن کثیر ۲/۶۴۵؛ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ [2] ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۴/۴۸۹؛ وتفسیر ابن کثیر ۲/۶۴۵؛ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔ [3] ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۴/۴۸۹؛ وتفسیر ابن کثیر ۲/۶۴۵؛ یہ بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔ [4] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲/۶۴۵، یہ حضرت ضحّاک سے منقول ہے۔ [5] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۶۴۵۔ [6] تفسیر السعدي ص ۵۲۱۔