کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 82
[احسان کرنے والے لوگوں کے لیے اس دنیا میں [حَسَنَۃً] ہے، اور بے شک آخرت کا گھر تو کہیں بہتر ہے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کا گھر بہت ہی اچھا ہے]۔
شیخ سعدی دنیا میں ملنے والی [حَسَنَۃٌ] کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’أَيْ رِزْقٌ وَاسِعٌ، وَعِیْشَۃٌ ھَنِیْئَۃٌ، وَطَمَانِیْنَۃُ قَلْبٍ، وَأَمْنٌ، وَسُرُوْرٌ۔‘‘[1]
[’’یعنی کشادہ روزی، خوش گوار زندگی، اطمینانِ قلب، امن اور مسرت۔‘‘]
ب: ارشادِ باری تعالیٰ:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ أُنْثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّ لَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ}[2]
[جو بھی نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو، تو ہم اسے ضرور [حَیٰـوۃً طَیِّبَۃً] بخشیں گے اور ہم انہیں ضرور ان کے اعمال سے زیادہ اچھا بدلہ دیں گے]۔
حافظ ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ھٰذَا وَعْدٌ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ لِمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی، وَقَلْبُہُ مُؤْمِنٌ بِاللّٰہِ وََرَسُوْلِہِ بِأَنْ یُّحْیِیَہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً فِيْ الدُّنْیَا، وَأَنْ یَجْزِیَہُ بِأَحْسَنَ مَا عَمِلَہُ فِيْ الدَّارِ الْآخِرَۃِ۔[3]
[1] تفسیر السعدي ص۵۰۹۔
[2] سورۃ النحل / الآیۃ ۹۷۔
[3] تفسیر ابن کثیر ۲/۶۴۵ باختصار۔