کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 75
رحمت اور سلامتی کی دعائیں کرتے رہیں گے۔[1] ج: {کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ}: [ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں] تفسیر: {کَذٰلِکَ}: اس سے آئندہ آنے والے لوگوں میں ذکرِ خیر باقی رکھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ گذشتہ آیت کریمہ [إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ] کے مشار إلیہ[2]سے الگ ایک نئی بات ہے، کیونکہ وہاں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے سختی اور شدّت دور کرنے کی طرف اشارہ تھا۔[3] {الْمُحْسِنِیْنَ}: اس سے مراد حکمِ الٰہی کے لیے مطیع اور فرماں بردار لوگ ہیں۔[4] درس ۲۳: اللہ تعالیٰ کے فرماں برداروں کے لیے قبولیتِ عامہ: آئندہ نسلوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکرِ خیر کے باقی رہنے کی علّت اور سبب حکمِ الٰہی کے لیے ان کی طاعت گزاری ہے۔[5] اس طرح قبولیتِ عامہ پانا صرف انہی کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ سنّتِ الٰہیہ
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۲/۷۹۶؛ وتفسیر أبي السعود ۷/۱۹۶؛ وفتح القدیر ۴/۵۶۹۔ [2] (مشار إلیہ): جس کی طرف اشارہ کیا جائے۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۷/۲۰۲۔ [4] ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۴/۵۷۷ تفسیر أبي السعود ۷/۲۰۲؛ وفتح القدیر ۴/۵۷۰۔ [5] ملاحظہ ہو: