کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 74
ان پر درود بھیجتی ہے۔ اور ان سے محبت کرتی ہے‘‘]۔
شیخ ابن عاشور لکھتے ہیں:
’’وَتَرَکْنَا لَہُ ثَنَآئً، وَأَنْعَمْنَا عَلَیْہِ۔‘‘[1]
[اور ہم نے ان کی تعریف کو باقی رکھا اور ہم نے ان پر انعام کیا]۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی تحریر کرتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے بعد آنے والی قوموں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا، یہودی، نصرانی اور مسلمان سب ہی ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں اور ان کے لیے سلامتی اور رحمت کی دعائیں کرتے ہیں اور قیامت تک ان کا ذکرِ جمیل قوموں میں باقی رہے گا۔‘‘[2]
ب: {سَلَامٌ عَلٰٓی إِِبْرٰہِیْمَ}: [ابراہیم علیہ السلام پر سلام ہو]
تفسیر:
اس کی تفسیر میں ذکر کردہ اقوال میں سے تین درج ذیل ہیں:
۱: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام پر سلام ہے۔[3]
۲: ان کے لیے آفات سے سلامتی ہے۔[4]
۳: اس کا تعلق سابقہ جملہ سے ہے اور مقصود یہ ہے، کہ ہم نے آئندہ نسلوں میں ان کے لیے یہ جملہ [سَلَامٌ عَلٰٓی إِبْرَاہِیْمَ] باقی رکھا اور مراد یہ ہے، کہ آئندہ آنے والے لوگ نسل در نسل ان کا ذکر خیر کرتے رہیں گے اور ان کے لیے
[1] تفسیر التحریر والتنویر ۲۳/۱۳۳۔
[2] تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن ص ۱۲۶۳۔
[3] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۵/۱۱۲؛ وتفسیر البیضاوي ۲/۲۹۶؛ وتفسیر التحریر والتنویر ۲۳/۱۳۳؛ تفسیر المراغي ۲۳/۷۶۔
[4] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۵/۱۱۲۔