کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 73
جس چیز کو وہ وجود میں لانا چاہیں، پلک جھپکتے وجود میں آجاتی ہے، وہ خود فرماتے ہیں:
{وَمَآ أَمْرُنَآ إِِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ}[1]
[اور ہمارا حکم صرف ایک دفعہ ہی آنکھ کے جھپکنے کی طرح ہوتا ہے]۔
جب ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی خاطر تیار ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے ظاہری اسباب کے بغیر عام معمول سے ہٹ کر سینگوں اور موٹی آنکھ والا سفید رنگ کا ایک مینڈھا مہیا فرمادیااور ایسے کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان اور سہل ہے۔[2]
(ل)
{وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِیْنَ. سَلَامٌ عَلٰٓی إِِبْرٰہِیْمَ۔ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ}
[اور ہم نے ان کا ذکر پچھلوں میں باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو، ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں]
تفسیر:
ا: {وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِیْنَ}:
علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
أَيْ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: ثَنَائً جَمِیْـلاً فِيْ الْأُمَمِ بَعْدَہُ، فَمَا مِنْ أُمَّۃٍ إِلَّا تُصَلِّي عَلَیْہِ وَتُحِبُّہُ۔‘‘[3]
[ ’’یعنی بعد میں آنے والی امتوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا، ہر امت
[1] سورۃ القمر / الآیۃ ۵۰۔
[2] اس کے متعلق تفصیل اس کتاب کے صفحات ۵۸۔۵۹ میں دیکھئے۔
[3] تفسیر القرطبي ۱۵/۱۱۲؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۶/۳۰؛ وتفسیر الخازن ۶/۳۰۔