کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 70
[’’انبیاء علیہم السلام کی پھر صالحین کی، پھر (باقی ماندہ) لوگوں میں سے سب سے زیادہ فضیلت والوں کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے بقدر ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو، تو اس کی آزمائش (کی شدّت) میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اگر اس کی دینی حالت پتلی ہو، تو اس کی آزمائش میں تخفیف کی جاتی ہے۔ بندہ آزمائش میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک وہ (اس حالت میں) زمین پر چلتا ہے، کہ اس کے ذمے کوئی گناہ نہیں رہتا‘‘]۔
(ک)
{وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ}
[اور ہم نے اس کے فدیے میں بہت بڑا ذبیحہ دیا]
تفسیر:
ا: {وَفَدَیْنَاہُ}:
جیسا کہ ظاہر ہے، کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ابراہیم علیہ السلام سے گفتگو کا ایک حصہ ہے اور مراد یہ ہے: کہ ہم نے تمہارے بیٹے کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا ہے۔[1]
ب: حضرت ابراہیم نے اسماعیل علیہما السلام کی طرف سے فدیہ دیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فدیہ کا حکم دینے کی بنا پر اس کی نسبت ان کی طرف کی گئی۔[2]
ج: {بِذِبْحٍ }: ذال کی زیر کے ساتھ [فِعْلٌ] کے وزن پر ہے اور یہ کثرت سے مفعول کے معنٰی میں آتا ہے۔ یہاں بھی [ذِبح] [مَذْبُوْحٌ] کے معنی میں آیا ہے، یعنی ذبیحہ۔[3]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر والتنویر ۲۳/۱۵۵۔
[2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲۳/۱۵۶۔
[3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲۳/۱۵۶؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۵/۱۰۷۔