کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 67
۲: اللہ تعالیٰ نے یہ لختِ جگر بڑھاپے میں عطا فرمایا تھا اور بوڑھے والدین ہی اس عمر میں ملنے والے فرزند کے ساتھ تعلق کو سمجھتے ہیں۔
۳: حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کے فرزندِ اوّل تھے اور اولاد والے پہلوٹھی کے بچوں کی محبت کی دلوں پر گرفت سے خوب آگاہ ہیں۔
۴: ذبح کا حکم ملنے کے موقع پر یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اکلوتے صاحبزادے تھے اور بوڑھے والدین کے اکلوتے فرزند سے تعلق کو رب ذوالجلال ہی بہتر جانتے ہیں۔
۵: اس راحتِ جان اور لخت جگر کو ذبح کرنے کا حکم اس وقت ملا، جب وہ کام کاج میں باپ کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔
۶: اس نورِ نظر میں دیگر اوصاف کے ساتھ ایک وصف یہ تھا، کہ وہ [بہت بردبار] تھے اور ایسے بیٹے کی حیثیت بوڑھے والدین کے لیے عام بیٹوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔[1]
درس ۲۰: بندوں کی آزمائش کا سنّتِ الٰہیہ ہونا:
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام ہی آزمائش میں مبتلا نہیں کئے گئے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے، کہ وہ بندوں کو مختلف قسم کے مصائب میں مبتلا کرکے ان کا امتحان لیتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں قرآن کریم میں بیان کردہ دلائل میں سے تین درجِ ذیل ہیں:
ا: ارشادِ ربانی:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ
[1] ان باتوں کی قدرے تفصیل (سوائے نمبر ۵ کے) راقم السطور کی کتاب [حضرت ابراہیم علیہ السلام بحیثیت والد] صفحات ۹۹۔۱۰۴ میں ملاحظہ فرمائیے۔