کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 66
[یعنی اسی طرح ہم اپنے اطاعت گزاروں کی تنگیوں اور سختیوں کو دور کردیتے ہیں اور ان کے معاملات میں ان کے لیے چھٹکارے اور نجات کی صورت بنا دیتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے (اس) ارشاد گرامی میں ہے: ترجمہ: اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ [1] اختیار کرے گا، تو وہ اس کے لیے نکلنے کی راہ بنا دیں گے اور اسے وہاں سے رزق دیں گے، جہاں سے وہ گمان نہ کرتا ہوگا اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرے، تو وہ اس کے لیے کافی ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرنے والے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔] (ی) {إِِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَآ ئُ الْمُبِیْنُ} [بے شک یہی تو یقینًا کھلی ہوئی آزمائش ہے] تفسیر: اس آزمائش کی سختی، دشواری اور شدّت متعدد باتوں سے نمایاں ہوتی ہے۔ ان میں سے چھ درج ذیل ہیں: ۱: حضرت ابراہیم علیہ السلام اعزہ و اقارب اور وطن سے دور تھے۔ ایسے حالات میں بیٹے کی اہمیت و ضرورت عام حالات سے زیادہ ہوتی ہے۔
[1] امام طبری کی رائے میں (المتقین) کی بہترین تفسیر یہ ہے، [اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ممنوعہ چیزوں کے ارتکاب میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچنے والے اور ان کے احکامات پر عمل کرکے ان کی اطاعت کرنے والے لوگ]۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۱/۳۳۳،۳۳۴)؛ اور امام نووی کے نزدیک [تقویٰ] اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کی پابندی کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تحریر ألفاظ التنبیہ ص ۳۲۲)؛ نیز ملاحظہ ہو: تقویٰ: اہمیت، برکات، اسباب صفحات ۲۵۔۲۸۔