کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 52
ان کے اس جملے میں، ایک دوسرے جملے:
[اللہ تعالیٰ نے چاہا، تو آپ مجھے ضرور صبر کرنے والا پائیں گے]
سے کہیں زیادہ زور ہے۔[1]
درس ۱۲: باپ کے ساتھ گفتگو میں ادب، احترام، محبت اور پیار کا اظہار:
اپنے ذبح ہونے کے متعلق باپ سے بات سننے کے باوجود خوش نصیب بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے لب و لہجہ میں سختی، درشتگی، رعونت، تکبر یا بیزاری کا دور دور تک نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے برعکس ان کے جواب میں محبت، پیار اور ادب و احترام ہے۔ بدنصیب اولاد کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے مزاج کے خلاف بات سن کر باپ سے گفتگو کی بھی رودار نہیں رہتی۔ ان کے مسکین باپوں کے کان [اباجان] کی ندا سننے کے لیے ہفتوں ترستے رہتے ہیں، لیکن ان شقی القلب صاحبزادوں کے پاس اپنے متکبرانہ رویے پر نظرِ ثانی کے لیے بھی فرصت نہیں ہوتی۔ اے اللہ کریم! ہم عاجز بندے ایسی سنگ دل اولاد سے آپ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ إنَّکَ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔
درس ۱۳: اچھے کام میں والدین کے ساتھ تعاون کرنا:
خوش نصیب اولاد خیر کے کاموں میں اپنے والدین کی حوصلہ افزائی کرتی اور ان کے دست و بازو بنتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے استفسار پر جلیل القدر بیٹے نے کس قدر استقلال و استقامت کے ساتھ باپ کی ذمہ داری کی تکمیل کے لیے تعاون ہی نہیں، بلکہ خود اپنے آپ کو پیش کیا۔ فَصَلَواتُ رَبِّیْ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی أَبِیْہِ، وَعَلٰی نَبِیِّنَا الْکَرِیْمِ۔
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر والتنویر ۲۳/۱۵۲۔