کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 47
کی نوید جاں فزا سنائی۔
ا: اللہ تعالیٰ نے خود ہی بیان فرمایا:
{أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ ط ئَ إِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْـــلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ}[1]
[بھلا وہ کون ہے، کہ جب لاچار اس کو پکارے، تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو]۔
ب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی خبر دی ہے۔ امام احمد نے بنی ہجیم کے ایک شخص رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں نے عرض کیا: ’’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِلَامَ تَدْعُوْ؟‘‘
: ’’یارسول اللہ! آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’أَدْعُوْ إِلَی اللّٰہِ وَحْدَہُ، الَّذِي إِنْ مَسَّکَ ضُرٌّ دَعَوْتَہُ، کَشَفَ عَنْکَ، وَالَّذِيْ إِنْ ضَلَلْتَ بِأَرْضٍ قَفْرٍ، فَدَعَوْتَہُ، رَدَّ عَلَیْکَ، وَالَّذِيْ إِنْ أَصَابَکَ سَنَۃٌ ، فَدَعَوْتَہُ ، أَنْبَتَ عَلَیْکَ۔‘‘[2]
[’’میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں، وہ یکتا ہیں، وہ ذات، کہ اگر تو مصیبت کے آنے پر ان سے دعا کرے، تو وہ اسے تجھ سے دور کردیں اور وہ ذات، کہ اگر تو کسی بے آب و گیاہ سرزمین میں بھٹک جانے پر
[1] سورۃ النمل / الآیۃ ۶۲۔
[2] المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۰۶۳۶، ۳۴/۲۳۹۔ شیخ ارناؤط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳۴/۲۳۹)۔