کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 46
کا ذکر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوْہُ بِغُـــلَامٍ عَلِیْمٍ}[1] [انہوں (ابراہیم علیہ السلام کے گھر داخل ہونے والے فرشتوں) نے کہا: ’’مت ڈرو اور انہوں نے ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی‘‘]۔ لیکن یہ دونوں بشارتیں اور ان کا مقصود جدا جدا ہے۔ [غُــلَامٌ حَلِیْمٌ] [2]والی خوش خبری اسماعیل، اور [بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ] [3]والی خوش خبری اسحاق علیہما السلام کے متعلق ہے۔ پہلی [بشارت استجابہ[4]] ہے، کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی فرمائش پر ملی۔ اسی لیے وہاں [بشرناہ] سے پہلے [فا] استعمال کیا ہے [5]اور دوسری [بشارت کرامہ] [6]ہے اور اسی لیے اس کا ذکر [واؤ عاطفہ] کے بعد کیا گیا۔[7] دروس ۹: ظاہری اسباب کی کمزوری کے باوجود اللہ تعالیٰ کا فریادوں کو سننا: اللہ کریم ظاہری اسباب کی قلت، کمزوری اور ناسازگار حالات کے باوجود اپنے بندوں کی فریادوں کو سنتے ہیں۔ کبر سنی کے باوجود اللہ کریم نے ابراہیم علیہ السلام کو [غُـلَام حَلِیْم]
[1] جزء من الآیۃ ۲۸۔ [2] نہایت بردبار لڑکا۔ [3] بہت علم والا لڑکا۔ [4] دعا کی قبولیت کی بشارت۔ [5] اس [فا] کو [فائے تعقیب] کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے، کہ انہوں نے دعا کی، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں بشارت دی۔ [6] یعنی امتحان و آزمائش میں کامیابی پر بطور انعام ملی۔ [7] یعنی یہ بشارت کسی سابقہ فرمائش یا التجا کا اثر یا نتیجہ نہ تھی، بلکہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاں فرشتوں کی آمد کا جو قصہ بیان ہورہا ہے، وہ اسی کا ایک حصہ ہے۔