کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 43
۱: وہ لڑکا ہوگا۔ ۲: وہ اس عمر کو پہنچے گا، کہ اسے بردبار کہا جاسکے، کیونکہ بچے کو تو بردبار نہیں کہا جاتا۔ ۳: وہ بہت بردبار ہوگا۔[1] ب: (حلیم) بہت زیادہ حلم والا۔ حلم (بردباری) ایک عظیم صفت شمار کی جاتی ہے۔ اس میں اصالت رائے، بلند اخلاق اور مخلوق کے ساتھ شفقت شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس صفت کو پسند فرماتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبد القیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’إِنَّ فِیْکَ لَخَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللّٰہُ: اَلْحِلْمُ وَالْأَنَاۃُ۔‘‘[2] [’’بے شک تجھ میں دو خصلتیں ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں پسند فرماتے ہیں: بردباری اور سوچ سمجھ کر جلد بازی کے بغیر قدم اٹھانا‘‘]۔ ج: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس صفت کا قرآن کریم میں دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے: I: {إِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیْمٌ}[3] [بے شک ابراہیم۔ علیہ السلام ۔ بہت نرم دل بڑے بردبار تھے]۔
[1] ملاحظہ ہو: الکشاف ۳/۳۷۴؛ وتفسیر البغوي ۶/۲۶؛ وزاد المسیر ۷/۷۱؛ والتفسیر الکبیر ۲۶/۱۵۱؛ وتفسیر القرطبي ۱۵/۹۸؛ وتفسیر الخازن ۶/۲۶؛ وتفسیر البیضاوي ۲/۲۹۸؛ وتفسیرأبي السعود ۷/۱۹۹۔ [2] ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الأمر بالإیمان باللّٰہ تعالی…، جزء من رقم الحدیث ۲۵۔(۱۷)، عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ۱/۴۹۔ [3] سورۃ التوبۃ جزء من الآیۃ ۱۱۴۔