کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 37
[’’تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، تو تمہیں قبولیت کا یقین ہو۔‘‘]
ب: دعا کی قبولیت کا یقین رکھنے والے کے بارے میں ان شاء اللہ تعالیٰ قوی توقع ہے، کہ اللہ تعالیٰ اس کی امید پوری فرماتے ہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ۔‘‘[1]
[’’میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے مطابق ہوں۔‘‘]
یعنی جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھتا ہے، میں ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔ اے اللہ کریم! ہمیں اپنے بارے میں بہترین گمان نصیب فرمائیے۔ إنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔
(ج)
{رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِیْنَ}
[اے میرے رب! مجھے نیک بخت (لڑکا) عطا فرمائیے]
تفسیر:
ا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور بیٹا عطا فرمانے کی التجا کی۔ عربی میں (وَہَبَ یَہَبُ) بلا قید استعمال ہو، تو اس سے بیٹے کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے، البتہ قید کے ساتھ بھائی دینے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ: {ویحذرکم اللہ نفسہ}، جزء من رقم الحدیث ۷۴۰۵، ۱۳؍۳۸۴؛ وصحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء…، باب الحث علی ذکر اللّٰہ تعالٰی، جزء من رقم الحدیث ۲۔ (۲۶۷۵)، ۴؍۲۰۶۱۔