کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 35
اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، مَا شَائَ أَقَامَ، وَمَا شَائَ أَزَاغَ۔‘‘[1]
[’’اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا ! بلاشبہ ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، وہ جسے چاہیں سیدھا کردیں اور جسے چاہیں ٹیڑھا کردیں۔‘‘]
ج: پختہ علم والوں کی دعاؤں میں سے… جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے… ایک دعا یہ ہوتی ہے:
{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَ نْتَ الْوَہَّابُ}[2]
[اے ہمارے رب! ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کج روی میں مبتلا نہ کیجئے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائیے۔ بے شک آپ ہی بہت زیادہ عطا کرنے والے ہیں۔]
مذکورہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہے، کہ مخلوق میں سب سے زیادہ شان و عظمت والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور راسخ علم والے اللہ تعالیٰ سے حضرت خلیل الرحمن علیہ السلام کی طرح دین پر ثبات اور استقلال کی دعائیں کرتے ہیں۔
د: حضراتِ ائمہ احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن حبّان نے
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۶۶۷۹، ۴۴/۲۷۸؛ وجامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب، رقم الحدیث ۳۷۵۲، ۹/۳۵۴؛ ومسند أبي یعلی، رقم الحدیث ۴۱۔(۶۹۱۹)، ۱۲/۳۵۰۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے [حسن]، شیخ البانی نے [صحیح] اور شیخ ارناؤط اور ان کے رفقاء نے [شواہد کی بنا پر صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۹/۳۵۴؛ وصحیح سنن الترمذي ۳/۱۷۱؛ وہامش المسند ۴۴/۲۷۹)۔
[2] سورۃ آل عمران / الآیۃ ۸۔