کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 33
[جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیں، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کریں، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں]۔
اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے اختیار میں ہدایت ہوتی، تو حضرت نوح علیہ السلام اپنے لخت جگر اور بیوی کو، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو، حضرت لوط علیہ السلام اپنی بیوی کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب کو بغیر ہدایت کے کیونکر رہنے دیتے؟
درس ۴: اہمیتِ ہدایت اور اس کا اللہ تعالیٰ سے مانگنا:
ہدایت کی اپنے دونوں معانی[1] کے اعتبار سے اہمیت اور ضرورت کس قدر شدید ہے، کہ خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے انتہائی بلند مقام کے باوجود رب ذوالجلال سے اسے طلب کر رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی متعدد دیگر نصوص بھی اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے چار ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
ا: امام مسلم نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی۔‘‘[2]
[’’اے اللہ! بے شک میں آپ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی اور تونگری کا سوال کرتا ہوں۔‘‘]
حدیث کے متعلق دو باتیں:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا صرف ایک مرتبہ نہیں کی، بلکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے بیان [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے]سے معلوم ہوتا ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
[1] دین اور دنیا کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہ نمائی اور دین پر ثابت قدمی۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب التعوّذ من شَرِّ ما عمل ومن شرِّ ما لم یعمل، رقم الحدیث ۷۲۔(۲۷۲۱) ۴/۲۰۸۷۔