کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 31
[وہ ضرور مجھے میرے دین میں ثابت قدمی عطا فرمائیں گے اور میرے لیے ہدایت میں اضافہ فرمائیں گے]۔
ب: دعا میں کمالِ یقین کے اظہار کا سبب:
حضرت ابراہیم علیہ السلام رب ذوالجلال کی اپنے اوپر سابقہ عنایات و نوازشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمالِ یقین کے ساتھ ان کے بارے میں اپنی امید کا ذکر کرتے ہیں: [وہ ضرور میری راہ نمائی کریں گے]۔ [1]
درس ۳: ہدایت کا من جانب اللہ ہونا:
ہدایت دینے کی صلاحیت اور اختیار صرف اللہ وحدہ لاشریک کے ہاتھ میں ہے۔ اس بارے میں ان کے سوا کسی اور کے پاس کچھ بھی نہیں۔ قرآن و سنت میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں اس بارے میں چار دلائل ملاحظہ فرمایئے:
ا: ارشادِ ربانی ہے:
{قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّہْدِیْٓ إِلَی الْحَقِّ قُلِ اللّٰہُ یَہْدِیْ لِلْحَقِّ اَفَمَنْ یَّہْدِیْٓ إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ یُّتَّبَعَ أَمَّنْ لَّا یَہِدِّیْٓ إِلَّآ أَنْ یُّہْدٰی فَمَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ}[2]
[کہہ دیجئے کیا تمہارے شریکوں میں کوئی ہے، جو حق کی طرف ہدایت دے؟ کہہ دیجئے: صرف اللہ تعالیٰ حق کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ کیا جو حق کی طرف ہدایت دیتا ہے، وہ پیروی کئے جانے کا زیادہ حق دار ہے یا
[1] ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۲۶/۱۵۱؛ وتفسیر البیضاوي /۷۹۸۔
[2] سورۃ یونس ۔ علیہ السلام ۔ / الآیۃ ۳۵۔