کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 29
بغیر، کسی بھی عمل کی، خواہ وہ کتنا بڑا یا زیادہ ہو، اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِہٖ وَجْہُہُ۔‘‘[1]
[بے شک اللہ تعالیٰ اس عمل کے سوا، جو کہ صرف ان کے لیے کیا گیا ہو، اور اس سے ان کی رضا کا حصول مقصود ہو، کسی بھی دوسرے عمل کو قبول نہیں فرماتے۔]
اللہ تعالیٰ نے اسی اخلاص کا حکم پہلے پچھلے سب لوگوں کو دیا۔ اہل کتاب کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَمَآ أُمِرُوْٓا إِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ }[2]
[اور انہیں اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیا گیا، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اپنے دین کو ان کے لیے خالص کرکے یکسو ہوکر کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی نہایت درست دین ہے]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی، اسی بات کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے:
{قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
[1] ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائی، کتاب الجہاد، باب من غزا یلتمس الأجر والذکر، جزء من رقم الحدیث ۲۹۴۳، ۲/۶۵۹، عن أبي أمامہ رضی اللہ عنہ ، شیخ البانی نے اسے [حسن صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۶۵۹)۔ نیز ملاحظہ ہو: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، المجلد الأول، رقم الحدیث ۵۲؛ وصحیح الترغیب والترہیب ۱/۱۰۶۔
[2] سورۃ البینۃ / الآیۃ ۵۔