کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 28
کے خدشے کی بنا پر نہیں کرتا ہے، تو اس اندیشے کو اپنے دل و دماغ سے نکال دے، جہاں تو ہجرت کرکے جائے گا، وہاں اللہ تعالیٰ تجھے اتنی زیادہ نعمتیں اور اس قدر بلند مرتبہ عطا فرمائیں گے، کہ وطن سے تجھے نکالنے والے تیری کیفیت کو دیکھ کر ذلّت و رسوائی محسوس کریں گے اور ہجرت تیرے لیے رزق کی فراخی اور وسعت کا سبب بن جائے گی۔‘‘[1]
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَ الَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ لَأَجْرُ الْاٰخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ}[2]
[اور جن لوگوں نے ظلم کئے جانے کے بعد، اللہ تعالیٰ کی خاطر وطن چھوڑا،
یقینا ہم انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور بے شک آخرت کا اجر سب سے بڑا ہے۔ کاش! وہ جانتے ہوتے]۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ اور تاریخِ عالَم اس حقیقت کی صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے وطن مکہ مکرمہ اور اس میں موجود اعزہ و اقارب، سازوسامان اور مال و دولت چھوڑا، تو اللہ مالک الملک نے انہیں سرزمینِ شام، ایران اور یمن کے خزانوں کی چابیاں عطا فرما دیں۔ شام کے سرخ محلّات اور مدائن کے سفید محلّات کا مالک بنا دیا۔ صنعاء کے دروازے ان کے لیے کھول دیے گئے۔ اور قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر ہوئے۔
درس ۲: مقصودِ عمل رضائے الٰہی کا حصول:
ہر عمل کرتے وقت مطلوب و مقصود صرف رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ اس کے
[1] التفسیر الکبیر ۱۱/۱۵۔
[2] سورۃ النحل / الآیۃ ۴۱۔