کتاب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ - صفحہ 26
[اور میں تم سے اور جن چیزوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو، جدا ہوتا ہوں اور اپنے رب کو پکارتا ہوں۔ امید ہے، کہ میں اپنے رب کو پکارنے میں بے نصیب نہیں ہوں گا]۔
۳: میری عبادت کا مقصود و مطلوب اپنے رب تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی بات کو قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر درجِ ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
{إِ نِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ أَ نَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ}[1]
[یقینا میں نے سب سے منہ موڑ کر اپنا رخ ان (اللہ تعالیٰ) کی طرف پھیر لیا ہے، جنہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں]۔
درس ۱: اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرنا:
جس مقام پر دشمنوں کی کثرت ہو اور دین پر چلنا کٹھن اور دشوار ہوجائے، تو وہاں سے ہجرت کرنی چاہیے۔ نصرتِ الٰہیہ کے شاملِ حال ہونے کے باوجود، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مشرکوں کی عداوت کی شدّت کی بنا پر ہجرت کی، تو دوسرے لوگوں کو تو ایسے حالات میں بطریقِ اولیٰ ہجرت کرنی چاہیے۔[2]
اہلِ ایمان کی نظر میں وطن کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ ان کا مقصد زندگی اپنے رب ذوالجلال کی عبادت ہوتا ہے۔ جہاں بھی ان دونوں میں تعارض پیدا ہوجائے، تو
[1] سورۃ الأنعام / الآیۃ ۷۹۔
[2] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۵/۹۷؛ والتفسیر الکبیر ۲۶/۱۵۰؛ وتفسیر المراغي ۲۳/۷۱۔