کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 98
تنخواہ لے کر کرتا ہے، وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہاہے۔ یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممدمعاون سرکار [1]ہے۔ “ اب مولانا رشید احمد گنگوہی کےمتعلق بھی ملاحظہ فرمائیں کیونکہ بقول جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے مصنف موصوف بڑے مجاہد تھے۔ جب وہابیوں کے لیڈر جزیرہ اندمان سے رہا ہوکر واپس ہندوستان آکر آباد ہوچکے اسی زمانہ میں موصوف سے سوال کیاگیا: ”ہند بقول امام یا ماحبین رحمہ اللہ کہادارالحرب ہے اگر نہیں تومولانا محمد اسمٰعیل صاحب دہلوی نے صراط مستقیم میں کس وجہ سے عصر ماضیہ میں اکثر کی نسبت ایسالکھا ہے اور فتنہ سابقہ میں اکثر اکابر علماء کلمۃ اللہ کی طرف کیوں مائل تھے اگر مستامنین قرادر دے کر ارتفاع امان کو علّت کہا جاوے تویہ بھی محل تامل ہے۔ بینوا بالتفصیل۔ “ جواب :۔ ہندکے دارالحرب ہونے میں اختلاف علماء کا ہے۔ بظاہر تحقیق حال بندہ کی خوب نہیں ہوئی۔ حسبِ اپنی تحقیق کے سب نے فرمایا ہےا ور اصل مسئلہ میں کسی کو اختلاف نہیں اوربندہ کو بھی خوب تحقیق نہیں کہ کیاکیفیت ہند کی ہے۔ و اللہ اعلم رشید احمد عفی عنہٗ گنگوہی، ( رشید احمد ۱۳۰۱ھ ) [2] مذکورہ بالا فتویٰ ۱۳۰۱ھ کا انگریزی ۸۴۔ ۱۸۸۳ء ہے گویامکمل ۲۶ سال سے قبل ۱۸۵۷ء میں کس طرح جہاد ہوگا جبکہ ۸۴۔ ۱۸۸۳ ء تک موصوف کو ہندوستان کے دارالحرب ہونے کی تحقیق ہی مکمل نہ ہوسکی تھی۔