کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 97
وہ وقت ہے کہ تمام وہابی لیڈروں اور ان کے اتباع کرنے والوں پر سامراج انگریز ظلم ڈھارہاتھا۔ ا سکی بنیاد رکھنے والوں پر سامراج انگریز ظلم ڈھارہاتھا۔ اس کی بنیاد رکھنے والوں میں کون حضرات شریک تھے۔ ”( مدرسہ دیوبندکے کارکنوں میں اکثریت ) ایسےبزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پنشنرتھے، جن کے بارے میں گورنمنٹ کوشک وشبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ [1] جن میں مندرجہ ذیل افرادمشہور ومعروف گزرےہیں۔ مولوی ذوالفقار علی والد شیخ الہند، مولوی فضل الرحمٰن والد مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولوی محمد یعقوب نانوتوی۔ ان کے متعلق جناب پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں :۔ ”مولانا احمد حسن، مولوی محمد مظہر اور مولوی محمد نیر توبنارس کالج، آگرہ کالج اور بریلی کالج میں ملازم ہوئے اور مولوی ذوالفقار علی، مولوی فضل الرحمٰن اور مولوی محمد یعقوب نانوتوی محکمہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر بھی رہے۔ “[2] مولانا غلام دستگیر افغانی فرماتےہیں :۔ ”برصغیر کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ علماء دیوبند حکومت کے وظیفہ خوار تھے اور دارالعلوم دیوبند کو حکومت کی جانب سے امداد ملتی تھی “ [3] غالباًیہی وجہ ہے کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی موجودگی میں ۳۱/جنوری ۱۸۷۵ء برو ز یکشنبہ کولیفٹیننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمیٰ ”پامر“ نے مدرسہ کو دیکھا اور اس نے جورائے قائم کی ہے وہ قابل ملاحظہ ہے۔ ” جوکام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتاہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہاہے جوکام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ