کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 93
البتہ جملہ چند از معاہدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بایہودِ مدینہ در ابتداء ہجرت ازسیرت ابن ہشام نقل می کنم کہ نمونہ ازنوعیت معاہدہ باغیر مسلم ورغیردارِ اسلام معلوم شود۔ “ ”شاہ صاحب ہندوستان کودارالعہد مانتے تھے۔ اسی وجہ سے پشاور کےلیے مذکورہ بالا اجلاس میں حکومت ہند سے محکمہ قضا کےلیے قیام کامطالبہ کیاگیا اور اس سلسلے میں جوتجویز منظور ہوئی تھی۔ اس میں محکمہ سے متعلق یہ الفاظ بھی تھے ”جوبحسبِ معاہدہ حکومت ہمارا شرعی حق ہے “[1] مولاناسعید احمد اکبر آبادی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ :۔ ’’اب رہی یہ بات کہ خود حضرت شاہ صاحب کا اس بارے میں خیال کیاتھا؟ توا س کا جواب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک ہندوستان دارالحرب نہیں بلکہ دارالامان بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ فقہاء کی اصطلاح میں (جس پر بحث آگے آرہی ہے ) دارالعہد تھا۔ “[2] دارالعہد کےلیے ضروری ہے کہ فریقین میں معاہدہ ہو۔ جس کی ذمّہ داری ان مؤرخین پر جودیوبند کو تاریخ کاہیرو ثابت کرنے میں اپنے قلم کاپوراز ور خرچ کردینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اب وہ معاہدۂ معاہدہ پیش کریں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۲۷ء تک بھی دیوبند ی حضرات کے نزدیک ہندوستان برطانوی سامراج کے تسلُط کےباوجود دارالامان تھا۔ [3]
[1] روزنامہ حریت کراچی ۲۳/مارچ ۱۹۸۳ء