کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 91
غورکیجیے کہاں وہ جزم ویقین اور کہاں یہ تردد وتذبذب، اس مؤخر الذکر فتویٰ پر جوتاریخ کندہ ہے۔ وہ ۱۳۰۱ھ ہے۔ پہلے فتویٰ پر دستخط اور نہ تاریخ۔ لیکن قیاس کہتاہے کہ اگر یہ واقعی حضرت گنگوہی کی تحریر ہے بھی تو فتویٰ ثانی پر یقیناً برسوں مقدّم ہوگی۔ پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ۱۳۰۱ہجری سے برسوں پہلے توحضرت کو ہند کی کیفیت کابخوبی اور واضح طور پرعلم تھا اور اس بناء پر آپ نےملک کودارالحرب قرا ردےدیا۔ لیکن اس واقعہ کے برسوں بعد آپ کو ہند کی کیفیت کی خوب تحقیق نہیں رہی۔ اور اس لیے اب ہند کونہ دارالاسلام فرماتے ہیں اور نہ ہی دارالحرب۔ کیاکوئی معمولی سمجھ کاآدمی بھی اس ترتیب کوباور کرسکتاہے ؟ [1] یہ تودرست ہے کہ معمولی سمجھ کاآدمی اس ترتیب کو تسلیم نہیں کرے گا۔ لیکن بعض نام نہاد محقق ایسے فتووں کو اپنے PH.D کے مقابلے کی زینت بناتے ہیں۔ جس کی مثال ڈاکٹر یاسمین الدین عقیل ہیں۔ جنہیں نے ”تحریک آزادی میں اُردوکاحِصّہ “میں مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کے زیر بحث فتوے کوزینت بخشی ہے۔ “ اگر مذکورہ افرادبرطانوی سامراج کی حکومت کومستحکم کرنے کے باوجومجاہدہیں تومولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے مسئلہ جہاد پرجوکچھ لکھا وہ مذکورہ فتووں سے کچھ زیادہ اور ان سے مختلف نہیں ہے توپھر موصوف پر برطانوی سامراج کا وفادار ہونے کا الزام کیوں عائد کیاجاتاہے ؟ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کامصنف لکھتاہے : ’’پھربیسویں صدی کے آغاز پر دسمبر ۱۹۰۶ء بمقام آرہ ( بہار) آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس وجود میں آئی جس کے سب سے فعّال کارکن مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ تھے۔ اہل حدیث کا نفرنس کی کارروائی کم وبیش