کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 90
شائع کیاجاتاہے جوآپ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کے متعلق بعض اہل علم تلامذہ کے سوال کے جواب میں مفصّل ومکمل تحریر فرمایاہے اور جس کی نقل حضرت ممدوح کے صاحبزادے حکیم مسعود احمد صاحب رحمہ اللہ نے احقر کوعطا فرمائی تھی اور حضرت کے اقارب وتلامذہ میں دوسرے متعدد حضرات کے پاس بھی اس کی نقلیں موجود ہیں۔ “[1] مولانا سعیداحمد اکبر آبادی دوسرے مقام پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:۔ ” اب آئیے اصل تحریر پر گفتگو کریں جیساکہ مفتی محمدشفیع صاحب نے جزم ویقین کے ساتھ بیان کیااور لکھا ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ یہ واقعی حضرت گنگوہی کی تحریر ہے تو قطع نظر اس بات کے اس تحریر پر حضرت گنگوہی کے دستخط نہیں ہیں اور یہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مسودات میں مفتی صاحب کواسی طرح ملی تھیں جس طرح مولانا منت اللہ شاہ صاحب کےمسودات میں دستیاب ہوئی تھی۔ ایک بڑ ااشکال یہ وارد ہوتاہے کہ اس تحریر میں حضرت گنگوہی نے پوری قوت وصراحت کےس اتھ ہندوستان کودارالحرب قراردیا ہے لیکن اور فتویٰ جومطبوعہ ہے اور جس پر آپ کے دستخط اور مہر بھی ہے او رفتویٰ اول کی تردید کرتاہے، چنانچہ ایک شخص نے سوال کیا۔ ”ہنددارالحرب ہے یانہیں “اس کےجواب میں فرمایا: ’’ہند کے دارالحرب ہونے کا اختلاف علماء کا ہے۔ اور اصل مسئلہ میں کسی کوخلاف نہیں اور بندہ کوخوب تحقیق نہیں کہ کیاکیفیت ہند کی ہے‘ رشید احمد عفی عنہٗ گنگوہی۔ “
[1] نقشہ المصدور اور ہندوستان کی شرعی حیثیت ص ۳۳۔ [2] نقشۃ المصدور اور ہندوستا ن کی شرعی حیثیت ص ۳۳ [3] مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمد رضاخاں بریلوی نے بھی ہنفوستان کودارالاسلام لکھاہے۔