کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 9
شفیق استاد عبدالخالق رحمہ اللہ نے وہابی لیڈر کی صرف تربیت وتعلیم کےحصول میں ہی مدد نہیں کی بلکہ اپنی دختر نیک اختر کا عقد بھی اس شان سے کیاکہ نکاح اور ولیمہ میں شاہ محمد اسحاق محدث رحمہ اللہ نے شرکت کی اورنکاح سے قبل عشاء کےبعد فجر کی نماز تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔
وہابی لیڈر اپنے مشفق استاد مولانا عبدالخالق رحمہ اللہ سے علم حاصل کرنے کےبعد شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے درس میں داخل ہوگئے۔ شاہ محمد اسحاق دہلوی نے جب ۱۸۴۱ء میں ہندوستان سے ہجرت کی تو ۱۸۳۱ء سے۱۸۴۱ء مکمل دس سال تک اپنی جانشینی کےلیے اپنے ارشد تلامذہ میں ہر ایک پر نظر ڈالتے رہے لیکن نظر انتخاب پڑی تووہابی لیڈر سید محمد نذیر حسین بہاری پر پڑی۔ اس لیے آپ کو اپنی مسند حدیث پر درس دینے کی اجازت دی جس کے متعلق ڈاکتر افتخار احمد صدیقی لکھتےہیں:
مدرسے کےدوسرے معلم مولوی عبدالخالق کے داماد شمس العلماء ملا علامہ سید نذیر حسین تھے جن کے علم وفضل کایہ مرتبہ تھاکہ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب مہاجر مکی نے ہجرت کے وقت افادہ وافتا اور تدریس کی خدمت ان کے سپردکرکے اپناخلیفہ وجانشین مقرر فرمایاتھا۔ [1]
اب ایک سوال اٹھتاہے اور وہ یہ کہ شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ نے وہابی لیڈرکوہی اپنی مسند پر اپناجانشین مقررکیا دوسرے تلامذہ کو اس سے کیوں محروم رکھا۔ راقم الحروف کےخیال میں اس کا سبب یہ ہے کہ شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کے پاس دوفتوے
[1] کشف الحجاب طبع پاکستان۔ ص ۳۱۔