کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 89
توجھٹ بول اٹھتےہیں کہ یہ دارالحرب ہے، گویا چت بھی ان کی اور پٹ بھی ان کی، ہجرت سے بچنے کےلیے اس ملک کو دارالسلام کہہ دیا اور سود کھانے کےلیے اسے دارالحرب قرار دے دیا۔ سبحان اللہ ! [1] یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ جب مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب نے لکھا ہے کہ اگرچہ راجح نزد ہیچمدان ہمیں باشد کہ ہندوستان دارالحرب است۔ (اگرچہ اس ہیچمدان کے نزدیک راجح یہی ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے ) توایسی حالت میں مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب نے ہندوستان سے ہجرت کیوں نہ کی جیساکہ وہ دوسروں سے مطالبہ کررہےتھے اس کا یہ مطلب کیوں نہ اخذ کیاجائے کہ موصوف نے تحریر میں تو دارالحرب لکھاہے لیکن حقیقت میں ہندوستان دارالحرب نہیں تھا اسی لیے یہاں سے ہجرت نہیں کی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کے متعلق عام تاثر یہ ہے کہ موصوف ہندوستان کودارالحرب سمجھتےتھے۔ جس کےمتعلق مولانا سعید احمد اکبر آبادی تحریرکرتے ہیں :۔ ”اصل یہ ہے کہ اب سے کم وبیش پینتالیس برس پہلے یعنی ۱۳۵۲ھ میں مولانا مُفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ثم کراچی نے دارالتبلیغ دیوبند ضلع سہارنپور کی طرف سے ایک رسالہ شائع کیاتھا جس کا عربی نام ” ‘‘ اور اردو نام ”کیاہندوستان دارالحرب ہے“ تھا۔ مفتی صاحب اسی رسالے کے تعارف میں لکھتے ہیں :۔ ہندوستان کے دارالاسلام و دارالحرب ہونے کا مسئلہ ایک عرصہ سے زیر بحث چلاآتاہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آج قطب الدین عالم جنید زمان ابوخلیفہ وقت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا وہ فتویٰ
[1] جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص ۶۷ [2] تذکرہ شیخ الہند ص ۱۷۲