کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 86
لیکن یہ حالت نہیں۔ مزید برآں یہ ضروری ہے کہ جہاد کیاجائے تو اس میں مسلمانوں کی فتح اور اسلام کی برتری کاقیاس غالب ہو۔ اگر اس قسم کے قیاس کا امکان نہ ہوتوجہاد ناجائز ہے۔ اس جگہ مولویوں نے ایک عربی متن درج کیاجو منہاج الغفار اور فتاوی عالمگیری سے منقول ہے۔ مہریں :۔ مولوی محمد علی لکھنوی، مولوی عبدالحی ٔ لکھنوی۔ مولوی فیض اللہ لکھنوی، مولوی محمد نعیم لکھنوی، مولوی مفتی اسد اللہ لکھنوی، مولوی رحمت اللہ لکھنوی، موولی قطب الدین لکھنوی [1]، مولوی لطف اللہ رامپوری۔ مولوی غلام علی رامپوری۔ محمڈن سوسائٹی کلکتہ کا فیصلہ :۔ شمالی ہندوستان کے علماء کے فتویٰ کی مخالفت کرتے یعنی یہ کہ ”ہندوستان دارالاسلام ہے“ مولوی کرامت علی یوں رقم طراز ہیں :۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ملک میں جہاد جائز ہے یانہیں۔ لیکن اس کو پہلے سوال کےساتھ حل کردیاگیاہے کیونکہ دارالاسلام میں جہاد کی اجازت کسی حالت میں بھی نہیں۔ یہ امر اس قدر واضح ہے کہ اس کی حمایت کےلیے کوئی دلیل یامثال پیش کرناضروری نہیں ہے اب اگر کوئی گم کردہ رامجنون اپنی الٹی قسمت کی وجہ سے ملک ہندوستان کے انگریز حاکموں کےخلاف جنگ شروع کردے تواس قسم کی جنگ کو بغاوت تصور کیاجائے گا اور بغاوت اسلامی فقہ میں سخت منع ہے۔ اس لیے یہ جنگ بھی
[1] نقشہ المصدور اور ہندفوستان کی شرعی حیثیت ، ص ۴۲۔ ۴۳ طبع انڈیا