کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 85
(دستخط احمد بن ذینی وحلان مکہ معظمہ کے شافعی رحمہ اللہ مذہب کا مفتی) جواب۳:۔ سب تعریف اللہ کےلیے ہے جوایک ہے اور خدا میرے علم کوبڑھائے یہ امر وسوکی شرح میں مرقوم ہے کہ دارالاسلام اس وقت تک دارالحرب نہیں بن جاتا جب وہ کافروں کے ہاتھ میں چلاجائے بلکہ اس وقت دارالحرب بنتا ہے جب اس میں اسلام کے تمام یابہت سے احکام جاری نہ رہیں۔ ( دستخط بقلم خود حسین بن ابراہیم مالکی مذہب کا مفتی مکہ معظمہ [1]) شمالی ہندکےعلماء کا فتویٰ :۔ استفتاء :۔ مترجمہ سیدامیرحسین پرسنل اسسٹمٹ کمشنر بھاگل پور۔ کیافرماتےہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ”ہندوستان میں جہاد جائز ہے ؟ یہ ملک پہلے مسلمان بادشاہ کے ماتحت تھا اوراب عیسائی حکومت کے زیر اقتدار ہے۔ یہ عیسائی بادشاہ اپنی مسلمان رعایا کے مذہبی فرائض میں مداخلت نہیں کرتا۔ مثلاً روزہ، حج، زکوٰۃ، نماز جمعہ اور نماز باجماعت اور مسلمانوں کوان فرائض کی ادائیگی پوری پوری آزادی ہے وہ مسلمانوں کو پناہ دیتاہے۔ بعینہٖ جیسے کوئی مسلمان بادشاہ دے گا۔ یہاں مسلمان رعایا کے پاس نہ اپنے حاکموں کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہے نہ اس کے پاس ہتھیار ہیں برخلاف اس کے اگر لڑائی شروع کردی جائے تو شکست ناگزیر ہے جس سے اسلام کی عزت کو نقصان پہنچے گا۔ “ فتوی ٰ بتاریخ ۱۷/ ربیع الثانی مطابق ۱۵/جولائی ۱۸۸۰ء اس جگہ مسلمان عیسائیوں کی امان میں ہیں اور اس ملک میں جہاد واجب نہیں جہاں اہل اسلام کو پناہ حاصل ہو، جہاد کےلیے ضروری ہے کہ مسلمانوں اور کافروں کوپناہ اور آزادی حاصل نہ ہو