کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 83
اُس وقت علماء احناف کا کردار یہ رہاکہ مولانا حبیب الرحمٰن لُدھیانوی ( مشہور احراری لیڈر) کے دادا مولوی عبدالقادر نے ( اہل حدیث ) سابقہ وہابیوں کےخلاف کتاب انتظام المساجد باخراج اہل الفتن والمساجد لکھی جس میں اہل حدیث کومساجد سے اخراج کا ہی فتوی نہیں دیا بلکہ عوام کوقتل کرنے کی ترغیب دلائی۔ ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰/مئی ۱۸۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند قائم ہوا۔ جس کے اکثر ارکان وہ بزرگ ہیں جن کےمتعلق قاری طیب صاحب بیان کرتے ہیں : ”مدرسہ دیوبند کے ارکان میں اکثریت ایسے بزرگوں کی تھی جوگورنمنٹ کے قدیم ملازم اورحال پنشررتھے جن کے بارے میں گورنمنٹ کوشک وشبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ “[1] ہرحکومت اپنےمخالفوں کی نگرانی کرتی ہے۔ وفاداری پر کس طرح شک کیاجاسکتاہے۔ حق بات توکبھی زبان پر آہی جاتی ہے۔ ایسے موقع کےمتعلق کہاجاتاہے کہ جادو وہ جوسر چڑھ کر بولے۔ ۳۱/جنوری ۱۸۷۵ء بروز یک شنبہ لیفٹیننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمیٰ پامر نے دارالعلوم کا معائنہ کیا جس سے متاثر ہوکر جو ریمارکس دیے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :۔ ” جوکام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کےصرف سے ہوتاہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہاہے جوکام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ پر کررہاہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہاہے یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد ومعاون سرکار ہے۔ [2] یہ ہیں علمائے دیوبند کے وہ اکابر جنہیں آج کل جنگِ آزادی کا ہیرو اور انگریز کا سب سے بڑا مخالف باور کرایاجارہاہے۔
[1] مولوی قطب الدین لکھنوی نہیں دہلوی ہیں۔ فاضل مترجم نے یہاں سراسربددیانتی سے کام لیاہے۔ اورچند مصلحتوں کی بناء پر حرکت کی ہے۔ اس کی تصدیق کےلیے اصلی کتاب دیکھی جاسکتی ہے ( ازمترجم ”ہمارے ہندوستانی مسلمان۔ “)