کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 76
ایسے نازک دورمیں میاں صاحب اور ان کےتلامذہ ہندوستان کودارالحرب ہونے کے اعلان کی کوششوں میں مشغول ہیں جبکہ بڑے بڑے علماء کرام جو سید احمد بریلوی کے پیروکار ہونےکےمُدعی ہیں۔ انگریزی حکومت کےخلاف کچھ کہتے یالکھتے ہوئے خوف زدہ تھے جس کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب سے سوال کیاگیا۔ ہندو دارالحرب ہے یانہیں ؟ اس کے جواب میں تحریر کرتے ہیں۔ ”ہند کےدارالحرب ہونے میں اختلاف علماء کا ہے بظاہر تحقیق حال بندہ کی خوب نہیں ہوئی۔ حسب تحقیق اپنی کے سبب نے فرمایا، ا ور اصل مسئلہ میں کسی کوخلاف نہیں اور بندہ کوخوب تحقیق نہیں کہ کیا کیفیت ہند کی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم “ میاں صاحب اور ان کے تلامذہ کی کوششوں سے برطانوی سامراج بھی واقف تھا اس لیے اس نے اس تحریک کوعام طور سے اور میاں صاحب کی ذات کو خاص طور سے نقصان پہنچانے کی خاطر ۲۲/جون ۱۸۹۷ء کو میاں صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دیا۔ شیخ الکل رحمہ اللہ اور وہابی تحریک کواس سے کوئی نقصان تو نہ پہنچا لیکن یہ اثر ضرور ہوا کہ وہابی تحریک کے سرگرم رکن مولانا جعفرتھانیسری رحمہ اللہ مرحوم سوئے ظن کی معصیت کاشکار ہوگئے۔ جناب پروفیسر محمد ایّوب قادری صاحب نے اس سوئے ظن کی معصیت کواپنی تحقیق کا محور قرار دے لیا۔ اللہ تعالیٰ ہرمسلم کو سوئے ظن کی معصیت سے محفوظ رکھے۔
[1] ضمیمہ اشاعۃ السنّہ ج۱ نمبر۱ص۴