کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 75
”کلکتہ پولس کی رپورٹوں سے ۸۱۔ ۱۸۸۰ ء میں ابراہیم کی جدوجہد کاحال معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۸۰ ء میں ڈھاکے کے ایک شخص بدیع الزمان نے ممتاز وہابیوں کا ایک جلسہ کرنے کی کوشش کی تھی جس میں نذیر حسین دہلوی بھی شامل کئے گئے تھے۔ چونکہ وہ پولیس کے زیر نگرانی تھے نذیر حسین نے دہلی میں جلسہ کرنے سے اختلاف کیا۔ “ شیخ الکل رحمہ اللہ میاں نذیر حسین کا تحریک جہاد یاوہابی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا تو پولیس آپ کی کیوں نگرانی کرتی تھی ؟ دوسرے مقام پر ڈاکٹر قیام الدین احمد صاحب تحریر کرتے ہیں۔ ”اس کے بعد کی ایک پولیس رپورٹ میں کمشنر پٹنہ کو اطلاع دی گئی کہ ممتا ز وہابیوں کا ایک جلسہ سراج گنج میں منعقد ہوا۔ جہاں نذیر حسین بھی اپنی بھانجی کی شادی کی شرکت کے بہانے سے گئے ہوئے تھے۔ اس تقریب نے بھی وہابیوں کے اجتماع کے لیے ایک آسان حیلہ مہیّا کردیا سر برآور دہ حاضرین میں نذیر حسین، محمد حسین لاہوری اور ابراہیم آروی تھے۔ جلسہ کے بانی ومہتمم ابراہیم تھے اور مقصد یہ تھاکہ ان کا تعاون حاصل کیاجائے اور اس ملک کے دار الحرب ہونے کا اعلان کردیاجائے۔ یہ فیصلہ بھی کیاگیا کہ چونکہ سرحد پر وہابی ریاست کا ہندوستان سے رابطہ اور اعانت نسبتاً بہت کمزور پڑگئی ہے ہندوستان سے مزید رضاکار وں اور امداد کی ترسیل کی کوششیں کرنا چاہئیں۔ خفیہ اجلاس کی خبر کوحکام کوملی اور مجسٹریٹ مولویوں کو اچانک جالینےکےلیے جھپٹے لیکن اس جگہ نہ کوئی قابل مواخذہ چیز دستیاب ہوئی اور نہ کوئی گرفتار کیاجاسکا۔ “