کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 74
”۱۸۶۵ء وہابیوں پر مہم امبیلا کے نتیجہ میں مقدمے چل رہے تھے تومیاں نذیر حسین کوبھی بحیثیت سرگردہ وہابیاں احتیاطاًراولپنڈی جیل میں نظر بند رکھا گیا میاں نذیر حسین کے یہاں سے مختلف حضرات مولوی محمد جعفر تھانیسری ( تین خط) مبارک علی ساکن پٹنہ ( دوخط) عطاء اللہ ( میرٹھ ) محمدعثمان (کانپور) امین الدّین ( کلکتہ ) ابوسعید محمد حسین بٹالوی ( امرتسر ) محمد سوداگر ( الموڑہ ) کےخطوط برآمد ہوئے۔ خود میاں ساحب کے خطوط کی نقول میں جومختلف حضرات کولکھے گئے تھے۔ بہادر شاہ ظفر بادشاہ دہلی کے غدر ۱۸۵۷ء کے دوران کے پانچ فرمان نکلے اس تمام موا د کی نہایت غور سے تحقیق کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میاں صاحب کا جہاد کی تحریک سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ “ بات یہ نہیں بلکہ شیخ الکل میاں نذیر حسین مرحوم کی رہائی کے اسباب دوسرے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :[1] ”یہ نذیر حسین بھی بنگالی ہے اور اب معلوم ہواہے کہ وہابیوں کا اصل سرغنہ بھی ہے اور یہ کہ امیدعلی اور امین الدین اس کے ماتحت تھے میں نے اس کے کاغزات پڑھے ہیں چونکہ وہ دہلی میں بااثر ہے اس لیے اس کےخلاف گواہی حاصل کرنا مشکل ہے۔ “ خط کشیدہ الفاظ پر ایک مرتبہ دوبارہ نظر ڈالیں اور خود فیصلہ کریں کہ شیخ الکل میاں صاحب کی رہائی کے کیااسباب تھے۔ میاں صاحب کی صلاحیتوں کی داد دینا چاہیے کہ تحریک کو اس طرح چلارہے تھے کہ برطانوی سامراج کی سی۔ آئی۔ ڈی بھی آپ کےخلاف شہادت مہیّا کرنے میں ناکام رہی۔ ڈاکٹر قیام الدین احمدصاحب تحریر کرتے ہیں۔ [2]