کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 72
علامہ شبلی نعمانی کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی سرسید احمد خاں کی پالیسیوں کے حامی تھے۔ اسی وجہ سے آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی کوخیر باد کہہ کر وہاں سے چلے گئے اور ندوہ میں جاکر علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ برطانوی حکومت نے آپ کی علمی خدمات سے متاثر ہوکر شمس العلماء کا خطاب عطا کیا جس کو قبول کرکے علامہ شبلی نعمانی صاحب نے خطاب کوعزت بخشی۔ قسم سوم:۔ اس جماعت میں وہ افراد شامل ہیں جن کی علمی وادبی، ثقافتی اور رفاعہ عامہ کی خدمات اظہر من الشمس ہونے کےعلاوہ کسی نہ کسی تحریک سے منسلک ضرور تھے۔ جیساکہ مثالوں سے ثابت ہوگا۔ شہزادہ غلام محمّد :۔ مشہور ومعروف مستشرق گارساں دتاسی شہزادہ غلام محمد کےمتعلق تحریر کرتا ہے۔ [1] ”بہت سے ایسے ممتاز مسلمانوں کےحالات ہم تک پہنچے ہیں جن کی نیکی اور فیاضی واقعہ عیسائیوں کے شایان شان ہے۔ ایسوں میں سے صرف ایک ذکر کروں گا۔ بہادر لیکن بدقسمت ٹیپوسلطان کے بارہ بیٹوں میں جو ایک آخری شخص ہیں وہ اس قسم کے لوگوں میں ہیں ان کا نام شہزاد غلام محمّد ہے۔ اس وقت ان کی عمر اب ۸۰ کے لگ بھگ ہے گزشتہ فروری کی ۱۷ /تاریخ کو لارڈمیئو (Mayo) والسرائے ہند نے انہیں ( کے۔ سی۔ ایس۔ آئی ) کا خطاب عطا کیا۔ شہزادہ غلام محمدنے شجاعت کے بجائے فیاضی اور سعادت سے نام پیدا کیا۔ دراصل دانش مند لوگوں کے نزدیک یہ زیادہ قابل ترجیح ہے۔ “ برطانوی حکومت نےشہزادہ غلام محمّد مرحوم کو صرف اس لیے خطاب دیاکہ