کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 65
ابھی ذکر کرچکا ہوں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس میں فتنے سے بچنے کے لیے ایجابی طور پر جس وضاحت سے انہیں اپنے عقائد بیان کرنا چاہیے تھا۔ اُس سے انہوں نے گریزکی۔ لیکن منفی طور پر انہوں نے اپنے اصلی عقائد سے ہرگز انکار نہیں کیا۔ اور ان حالات کودیکھتے ہوئے جوانہیں وہاں پیش آئےتھے۔ اُن کے اس تسامح کوکوئی بھی قابل الزام کمزوری نہیں قرا ر دے سکتا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ اگروہ حریف کے ساتھ بحث وجدال میں اُتر آتے تو نتیجہ نہایت ہولناک ہوتا“ [1] یہ وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے الشیخ الکل رحمہ اللہ نے ۱۰ اگست ۱۸۸۳ء کو کمشنر دہلی سے برطانوی سفیر مقیم جدّہ کے لیے اپنے تحفظ کے واسطے خد لکھوایا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تومعاندین شاید حبس دوام یا قتل کرانے میں کامیاب ہوجاتے۔ جس کا نتیجہ حجاز مقدس میں خونریزی کی شکل میں ظاہر ہوتا۔ کیونکہ مولوی تلطف حسین فرماتے ہیں :۔ ”کہ ہم لوگ جب اپنی قیام گاہ پر پہنچ گئے ، توشیوخ اہل مشرق ( جن کا قافلہ شہر سے فاصلہ پرتھا اور اس میں چھ ۶۰۰ سومسلح سوارتھے) آئے۔ میری ان سے سرِراہ ملاقات ہوئی۔ شیوخ موصوف پوچھنے لگے۔ این الشیخ ‘شیخ کہاں ہیں۔ میں نے کہامکان میں ہیں۔ ان شیوخ نے برہمی کے لہجہ میں کہاکہ ہم کودکھادو۔ ہم لوگ کچھ اور ہی بات سُن کر آئے ہیں۔ میں نے ساتھ لے جاکر دکھادیا۔ ا ور ملاقات کرادی۔ شیوخ ممدوح نے کہا کہ ابھی ایک موحش خبر سن کر ہم لوگ تحقیق کے لیے آئےتھے الحمد اللہ کہ شیخ کو زندہ صحیح وسالم اپنی جگہ پردیکھا ورنہ آج جو کچھ ہوتا
[1] نقش حیات جلددوم صفحہ ۲۴۰۔ ۲۳۸