کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 64
میاں صاحب کی پوزیشن :۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا نذیر حسین مرحوم نے اس تحریر میں اُن اصولوں کےخلاف کوئی بات نہیں کہی ہے جواہل حدیث کے اصول سمجھے جاتے ہیں، نہ تقلید شخصی کے وُجوب کوماناہے۔ نہ کتب حدیث پر کتب فقہ کی ترجیح کو، صرف براء ت واظہار ہے، تاہم یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اُن کے مخالفین نے مکّے سے اس بات کی خبریں بھیج دیں کہ انہوں نے وہابیت سے توبہ کرلی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خود والد مرحوم باوجود ان تمام تر تفصیلات کے بیان کرنے سے کہاکرتے تھے کہ مولانا نذیر حسین رحمہ اللہ نے توبہ کرلی، ا ور زور دیتے تھے کہ انہوں نے تقلید شخصی کو مستحسن تسلیم کرلیا، حالانکہ یہ جماعت بھی عوام کے لیے ہمیشہ تقلید کوضروری بلکہ فرض ٹھہراتی ہے بحث توصرف التزام وتعیّن میں ہے نہ کہ نفس تقلیدمیں۔ [1] ایک اور پہلو بھی اس واقعہ میں قابل ذکر یہ ہے کہ جس طرح اس طرف سےغلط بیانی کی گئی۔ اُسی طرح مولانا نذیر حسین مرحوم کے طرفداروں اور نادان متقدوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ گرفتاری اُن کے لیے موجب توہین ہے، اس کے واقعہ ہونے ہی سےانکار کردیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ خبریں محض غلط ہیں۔ حالانکہ مولانانذیر حسین کا گرفتار ہونا، ایک ایسے مرکز میں جیسا مکہ ہے، نہ صرف یہ کہ موجب توہین نہیں ہے بلکہ قدرتی ہے۔ ایک توبہ نامہ بھی مولانا نذیر حسین مرحوم کا بعض رسالوں میں میری نظر سےگزراہے‘اوہ وہ مباحثہ مرشد آباد میں پیش بھی کیاگیاتھا، لیکن ان کے فرضی ہونے پر میں ایسی شہادتیں رکھتا ہوں جن سے زیادہ قابل اعتبار شہادتیں اور نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ جو تحریر مولانا نذیر حسین نے دی تھی وہ بار ہاوالد مرحوم نے مجھے حرف بحرف سُنائی ہے اور وہی ہے جس کا