کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 63
کاشاگردتھا، مگر انہوں نے اُس سے بھی اپنی بے تعلقی ظاہر کی۔ معلوم ہوتاہے مولانا نذیرحسین مرحوم، مجمل ومختصر بیان دے کرمعاملے کوختم کرنا چاہتےتھے کیونکہ سمجھتےتھے۔ تفصیلات میں پڑنا یامباحثہ کرنا طاقت کے مقابلے میں بے کار ہے۔ آخر میں انہوں نے اس بیان پر اکتفاکی کہ ہمارا عقیدہ اہل سُنّت والجماعت کا ہے۔ آئمہ اربعہ کوہم مانتے ہیں۔ چاروں کوہم حق پر سمجھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کو اپنا پیشوا جانتے ہیں۔ اُن کے بعض کو خلاف شیوہ ٔ ایمان سمجھتے ہیں اور کتب فقہ پر عمل کرنا، جب تک قرآن وحدیث کےخلاف نہ ہو۔ خود ہمارا شیوہ ہے۔ مکائد وہابیہ :۔ یہ بیان علمائے حجاز کے لیے ایک حد تک تشفی بخش ہوجاتالیکن جیساکہ والد محترم کہاکرتےتھے ، و ہ ان باتوں کو وہابیوں کے ”مکائد“تصور کرتےتھے کہتےتھے کہ میں نے یہ مکائد نہ چلنے دیے اور کہا تفصیلاً بتاؤ کہ آئمہ اربعہ میں کس امام کی تقلید کرتے ہو؟ اور فلاں فلاں مسائل میں تمہارا کیااعتقاد ہے؟ اس پر انہوں نے تیسری مجلس میں ایک تحریر پیش کی جس میں لکھا تھا کہ آئمہ اربعہ کی تقلید کوفرائض وواجبات شرعیہ کی طرح فرض نہیں سمجھتا، لیکن عوام کےلیے اور اُن کے لیے جوفقہ وحدیث میں نظر نہیں رکھتے ہیں، جب تک کہ قرآن وحدیث کے خلاف کوئی صریح بات پیش نہ آئے ، کتب ِ فقہ متداولہ پر عمل کرنے کو مستحسن سمجھتا ہوں اس کےعلاوہ فلاں فلاں عقائد اور الزامات جومیری طرف منسوب کیے گئے ہیں، میں اُن سے بَری ہوں اورحلفیہ کہتا ہوں کہ میرے عقائد وہ نہیں ہیں۔ اس اثناء میں اُن کی گرفتاری کی خبر، جدّےمیں برٹش قونصل کوپہنچ گئی اور وہاں سے برابر زور دیاجارہاتھا، بالآخر نودن کے حبس کے بعد اُن سے آخری تحریر پر دستخط کرائے گئے اور انہیں رہاکردیاگیا۔
[1] الحیات بعد الممات طبع انڈیا ص ۱۰۱۔ ۱۰۲ [2] الاعتصام ۳۰ مارچ ۶۔ ۱۳ اور ۲۰ اپریل ۱۹۸۴