کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 62
کااحتساب کریں تاکہ وہ مسلمانوں کوگمراہ نہ کرسکیں۔
دوسرے دن شریف مکّہ کے یہاں ایک مجلس منعقد ہوئی اور اُس میں والد صاحب سے کہاگیا کہ ان کے عقائد کی فہرست پیش کریں۔ فہرست میں سب سے پہلا الزام امام صاحب کی توہین کا تھا اور باقی مذکورہ الزامات تھے۔ مولانانذیر حسین مرحوم کی طرف سے مولوی تلطف حسین تقریر کرتےتھے۔ سب سےپہلے انہوں نے اس حالت پر افسوس کااظہار کیاکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں کفّار کی سلطنت ہے لیکن وہاں ہمارے عقائد کی وجہ سے ہمیں کوئی گزندنہیں پہنچایاجاتا۔ یہاں اسلامی حکومت ہے اور دارا لامن ہے۔ اور بلاکسی وجہ کے ہم کوگرفتار کرکے مبتلائے محن کیاجاتاہے۔ پھر کہاکہ ہم پر جو یہ الزام ہے کہ ہم وہابی ہیں۔ ہم قرآن وحدیث مانتے ہیں اور اُسی پر عمل کرتےہیں۔
اس پر والد مرحوم نے کہاکہ اجماع وقیاس کوبھی مانتے ہو؟ مولانانذیر حسین رحمہ اللہ علیہ نے کہاکہ ہاں ہم اجما ع وقیاس کواُسی طرح مانتے ہیں جس طرح آئمہ مجتہدین مانتے تھے۔ اس پر گفتگو شروع ہوئی اور بہت قیل وقال ہوئی۔ ا س کے بعد کہاگیا ائمہ اربعہ کی نسبت تمہاراکیا عقیدہ ہے ؟ اُنھوں نے کہاکہ اگر اس طرح کے مباحث ، امام صاحب کی توہین ہے تو وہ تمام کتابیں بھی توہین پر ہوں گی، جن میں مسائل مختلف فیہ پربحث کی گئی ہے اور خود سلف نے لکھی ہیں۔ پھر ایک ایک کرکے تمام تر الزامات سُنائے گئے۔ ا ُنھوں نے بڑےجوش سے ان سےا پنی براءت ظاہر کی۔ اس پر ثبوت میں جامع الشواہد پیش کی گئی۔ اُنھوں نے کہا، یہ مخالفین کی چیز ہے اور ہم اس کے ذمّہ دار نہیں۔ اس پر کسی پشاوری کا ایک رسالہ پیش کیاگیا۔ جومولانانذیر حسین
[1] آزادکی کہانی خود آزاد کی زبانی طبع انڈیا ص ۱۰۲تا۱۰۸