کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 60
ایک لمحہ کےلیے بھی اہل حدیث کے ساتھ رواداری کےحق میں نہیں تھے۔ اس لیے مکہ مکرمہ میں شیخ الکل رحمہ اللہ کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں۔ مکےمیں مولانا نذیر حسین رحمہ اللہ کی گرفتاری: زمانۂ قیام مکہ میں ایک اور قابل ذکر واقعہ پیش آیا۔ یعنی مولانا سیّد حسین مرحوم، ہندوستان میں درس حدیث کے آخری مرکز تھے۔ [1]انہوں نے جب سفر حج کا ارادہ کیاتو ان کو خیال پیدا ہواکہ مخالفین مکہ میں ایذا رسانی کی کوشش کریں گے اس لیے کہ علماء وہابیہ کے ساتھ وہاں پہلے جوسلوک ہواچکاتھا اُس سے باخبر تھے۔ اور اب حجاز کی یہ حالت ہورہی تھی کہ بلاتقیّہ کوئی وہابی محفوظ طور پر نہ رہ سکتاتھا۔ شیعہ وخوارج توعلانیہ جاتے اورحج کرتے کوئی روک پیش نہ آتی۔ مگر وہابیہ کےلیے یہ موقع نہ تھا۔ مولانا مذیر حسین رحمہ اللہ کے چونکہ غدرمیں مسزلیؔسن کی جان بچائی تھی اور اس لیے حکام سے اُن کے تعلقات اچھےتھے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنردہلی کے ذریعہ سے فارن آفس میں سلسلہ جنبانی کی اور جدّے میں برٹش قونصل کے نام پر ایک سفارشی چٹھی بھجوائی، جس میں لکھا تھا کہ اُن کی حفاظت کی جائے۔ ا ور جوضرورت انہیں پیش آئے۔ حتی الامکان اُس میں پوری طرح مدد دی جائے۔ اس طرح یہ حجاز روازنہ ہوگئے۔ ہندوستان میں چونکہ اُس وقت تقلید وعدم تقلید کا فتنہ زور پر تھا اور مولانا نذیر حسین، غیر مقلدین کے سب سے بڑے شیخ سمجھےجاتے تھے، اس لیے فوراً مکے میں اطلاع دے دی گئی کہ وہابیہ کاسب سے بڑا سرغنہ آرہاہے، اگر وہاں کوئی