کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 58
بعدشیخ کبیر امداداللہ مہاجر تھانوی سے طریقہ (تصوّف) اخذ کیا۔ ایک زمانے تک شیخ کی صحبت میں رہے پھر ہندوستان واپس آئے۔ “[1] نوٹ :۔ مولاناعبیداللہ سندھی کی شہادت کوسامنے رکھتے ہوئے ایک عام قاری کو اندازہ لگانامشکل نہیں کہ مولاناشیخ محمد تھانوی نے تحریک آزادی اور اس کے فتوے کی مخالفت کی، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ شیخ صاحب کے نقش قدم پر برابر چلاکئے۔ لیکن ان حضرات کےخلاف کوئی تحریک نہ چلائی گئی۔ کوئی اقدامات نہیں کیے گئے نہ کوئی کمیٹی ہی بنائی گئی۔ اس سے بڑھ کر تعجب خیز امر یہ ہے کہ اپنےملک میں کمیٹی کی تشکیل میں مشکلات درپیش تھیں تو بیرون ملک میں ہی ایسے اقدامات کرنا چاہیے تھے لیکن کمیٹی بنائی گئی۔ اراکین کوجمع کیاگیا، ترکان عثمانی کی خارجہ پالیسی کو ملوث کیاگیا توصرف شیخ الکل رحمہ اللہ ( میاں سید محمد نذیر حسین ) کےخلاف اس وجہ میں کہاجاسکتاہے کہ اس کا مقدمہ برطانوی حکومت کی مذمت تھا، لیکن اس حکمت عملی کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کےلیے تقلید شخصی اور قرآن حدیث پر بلاواسطہ عمل کرنے کے عقیدہ کوبطور ہتھیار استعمال کیاگیا۔ ۳۔ مولوی عبدالقادر بدایونی :۔ مذکورہ کمیٹی کے تیسرے اہم رکن مولوی عبدالقادر بیان کیے گئے ہیں۔ موصوف کے والد فضل رسول بدایونی صاحب تھے۔ بدایونی صاحب کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں : ”مولوی فضل رسول بدایونی مرحوم سوط الرحمٰن [2] میں لکھتے ہیں کہ داؤد ظاہری