کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 57
فتوے جہاد کےخلاف شیخ محمد تھانوی صاحب نے جورویہ اختیار کیا، ا س رویے کی اتباع مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے کی۔ مولانا تھانوی کےاسی مسلک کی بناء پر پر مولانا عبیداللہ سندھی نے اس کے ”استحاق جانشینی “پر احتجاج کیا ہے۔ فرماتےہیں : ”شیخ محمد تھانوی وہ بزرگ ہیں جن کے مسلک پر مولانا اشرف علی تھانوی کاربند تھے اور شیخ الہند کی جماعت کی سیاست کو غلط مانتے ہیں مولانا اشرف علی مرحوم کے سوانح حیات جوشائع ہوچکے ہیں، ان میں تصریح ہے کہ آپ شیخ محمد صاحب کے مسلک کے پیر وہیں۔ مولانا شیخ محمد تھانوی اور امیرامداداللہ، ایک ہی مرشد کےخلیفہ ہیں اوراسی مسئلہ جہاد پر آپس میں مخالف ہوگئے اور جماعت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی تو اب امیر امداد اللہ کی جانشینی کا استحقاق مولانا اشرف علی صاحب کو کس طرح پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی خطرناک استادی ہے جومولاناشیخ الہند اور ان کے اساتذہ کے خصوصی کاموں کو بیکار بنادینا چاہتی ہے۔ ‘‘ [1] مولانا عبیداللہ سندھی کے استعجاب اور احتجاج پر مشتمل بیان آپ نے پڑھ لیا۔ اب مولانا عبدالحی رحمہ اللہ کی درج ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے کہ طریقت اور سیاست کی جُدائی پائی جاتی تھی ، یعنی شیخ کی ارادت میں برطانوی سامراج کی وفاداری شریک ہوسکتی تھی اس اشتراک سے استحقاق جانشینی پیدا کرنا مقصود تھا۔ مولانا عبدالحئی فرماتےہیں : ثم سافرا الی الحجاز وحج وزاد و اخذ الطریقة عن الشیخ الکبیر امداداللہ التھانوی المھاجر الی مکة المبارکة وصحبة زمناثم رجع الی الھند۔ ”(مولوی اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ) پھرحجاز کا سفرکیا۔ حج اور زیارت کے
[1] ہندوستان ہی نہیں تقریباً تمام دنیائے اسلام کےشیخ حدیثتھے۔ دہلی میں ۸۰برس درس دیا۔