کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 56
اسی طرح مولانا غلام اللہ صاحب نے راوالپنڈی کی اہلِ حدیث مسجد پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ ؏ ہمیں یاد ہے وہ ذرا ذرا تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو حاجی امداداللہ مہاجر مکّٗی صاحب :۔ مذکورہ کمیٹی کے ارکان میں دوسرے ذی اثر حاجی امداداللہ ساحب تھانوی ثم مکّی کانام شامل ہے۔ جن کےمتعلق مولانا عبیداللہ سندھی کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ ”امیر امداداللہ صاحب کا اصل نام امدادحسین تھا۔ جسے مولانا اسحاق صاحب نے بدل کر امداداللہ کردیا۔ حاجی امداداللہ کی ذات مرجع خلائق تھی۔ اور آپے بے شمار اہل فن نے فیض پایا۔ ان میں سے مشہور مولاناقاسم، رشید احمد، شیخ فیض الحسن سہارنپوری اور دوسرے نامی گرامی عُلمائے ہند ہیں۔ ۱۸۵۷ء کےہنگامے میں آپ معرکہ شاملی کے امیرتھے۔ ا س کےبعد موصوف چھپ کر حجاز چلے گئے۔ اور مکّہ معظمہ میں اقامت پذیر ہوگئے۔ حاجی امداداللہ دیوبندی جماعت کے امیر تھے۔ ۱۳۱۷ء میں انتقال فرمایا۔ ‘‘ [1] آگے چل کر مولانا عبید اللہ سندھی نے جوحالات بیان کیےہیں ان سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فتویٰ جہاد کے بارے میں ان حنفیوں میں اختلاف ہوا تھا۔ اس اختلاف میں جو عوامل ومحرکات کار فرماتھے، ا ن میں اندیشہ سوزیاں اور مصلحت وقت ہی زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسی جذبے نے آگے چل کر برطانوی سامراج کی وفاداری کووجہ افتخار بنادیا۔ اس بنیاد پر کہاجاسکتاہے کہ ۱۸۵۷ء میں
[1] حاشیہ تذکرہ ص ۲۲۶ طبع اول کلکتہ [2] نزہۃ الخواطر، ص ۲۷۶ ج۸